سچی پاکیزگی، حقیقی تزکیہ اور دنیا و آخرت کی حسنات اور ترقیات کے حصول کے لئے ایک عظیم الشان الٰہی نظام قیامِ نماز کے مختلف مدارج امیرالمومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز بارہا اپنے خطبات و خطابات میں ہمیں اپنی نمازوں کا جائزہ لینے اور نمازوں اور عبادات کے معیاروں کو بلند سے بلند تر کرتے چلے جانے کی طرف توجہ دلاتے رہتے ہیں۔ حضرت مصلح موعود خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے سورۃ المومنون کی ابتدائی آیات کی تفسیر کرتے ہوئے نماز کے سات درجات کا ذکر فرمایا ہے جو نہایت اہم ہے اور ہمیں ان بلند معیاروں کی طرف رہنمائی دینے والا ہے۔ ہم میں سے ہر ایک اپنی جگہ اپنا اپنا جائزہ لے سکتا ہے کہ وہ کون سے درجہ پر ہے اور ابھی اسے اعلیٰ و ارفع منزل تک پہنچنے کے لئے کتنا سفر طے کرنا ہے۔اللہ کرے کہ ہم اس سے فائدہ اٹھانے والے ہوں اور اللہ تعالیٰ کے قرب کی راہوں میں ثبات قدم سے مسلسل آگے بڑھتے چلے جانے والے ہوں۔ ……………………… ٭حضرت مصلح موعو د ؓ فرماتے ہیں: ’’پھر چھٹا درجہ یہ بتایا کہ وہ لوگ اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں ۔یہاں نماز کا لفظ جمع کی صورت میں آیا ہے۔پس اس سے ایک تو اس طرف اشارہ ہے کہ وہ ہر قسم کی نمازیں یعنی فرائض اور نوافل اچھی طرح ادا کرتے ہیں۔ اور دوسرے اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ وہ اپنی قوم میں سے ہر ایک کی جسمانی عبادت کی حفاظت کرتے ہیں۔ یعنی یہ دیکھتے رہتے ہیں کہ اُن کی اولاد، اُن کی بیویاں ، اُن کے رشتہ دار اور اُن کے ہمسایہ اور اُن کی سب قوم نماز کی پابند ہے یا نہیں ۔کیونکہ جب تک سارے خاندان بلکہ ساری قوم کے اعمال درست نہ ہوں اُس وقت تک انسان کا اپنا عمل بھی خطرہ سے باہر نہیں رہ سکتا۔بہت دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ جب ایک شخص صبح اپنے بچے کو نماز کے لئے جگانے لگتا ہے تو اُس وقت فوراً جذباتِ محبت اُس کے سامنے آجاتے ہیں اور دل میں کہتا ہے ۔سخت سردی ہے میں اسے کیوں جگاؤں۔اگر نماز کے لئے جگایا تو اسے سردی لگ جائے گی۔پھر وہ بیوی کو نماز کے لئے جگانے لگتا ہے تو اس وقت بھی محبت کے جذبات اُس کے سامنے آجاتے ہیں اور وہ کہتا ہے ساری رات یہ بچے کو اُٹھا کر پھرتی رہی ہے۔اب میں اسے جگاؤں گا تو اس کی نیند خراب ہو جائے گی۔بہتر ہے کہ یہ سوئی رہے، نماز پھر پڑھ لے گی ۔غرض کبھی سخت سردی اور کبھی سخت گرمی کا عذر اس کے سامنے آجاتا ہے۔ چھ مہینے اس کے سامنے یہ سوال رہتا ہے کہ سخت سردی ہے ان ایام میں بچہ کو نماز کے لئے کیوں جگاؤں اسے سردی لگ جائے گی اور چھ مہینے اُس کے سامنے یہ سوال رہتا ہے کہ نازک اور پُھول سا بچہ ہے نماز پڑھنے گیا تو اسے گرمی لگ جائے گی۔پھر کبھی بیوی کو جگاتے وقت یہ خیال آجاتا ہے کہ یہ ساری رات تو بچے کو اٹھائے پھرتی رہی ہے اس لئے بہتر ہے کہ سوئی رہے، نماز پھر پڑھ لے گی۔ غرض قدم قدم پر جذبات اور احساسات اُس کے سامنے آجاتے ہیں اور اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ نہ اُن کی اصلاح ہوتی ہے اورنہ اس کی اپنی اصلاح مکمل ہوتی ہے ۔اسی لئے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے۔ قُوۡا اَنۡفُسَکُمۡ وَ اَھۡلِیۡکُمۡ نَارًا۔ یعنی اے میرے بندو !نہ صرف اپنے آپ کو دوزخ کی آگ سے بچائو بلکہ اپنے اہل وعیال کو بھی آگ سے بچاؤ۔ تمہارا صرف اپنے آپ کو آگ سے بچا لینا کافی نہیں بلکہ دوسروں کو بچانا بھی ضروری ہے کیونکہ اگر دوسرا نہیں بچے گا تو وہ تمہیں بھی لے ڈوبے گا۔ مگر یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ نماز کی پابندی کئی رنگ کی ہوتی ہے۔ سب سے پہلا درجہ جس سے اترکر اور کوئی درجہ نہیں یہ ہے کہ انسان بالالتزام پانچوں وقت کی نمازیں پڑھے۔جو مسلمان پانچ وقت کی نمازیں پڑھتا ہے اور اُس میں کبھی ناغہ نہیںکرتاوہ ایمان کا سب سے چھوٹا درجہ حاصل کرتا ہے ۔ دوسرا درجہ نماز کا یہ ہے کہ پانچوں نمازیں وقت پر ادا کی جائیں۔ جب کوئی مسلمان پانچوں نمازیں وقت پر ادا کرتا ہے تو وہ ایمان کی دوسری سیڑھی پر قدم رکھ لیتا ہے۔ پھر تیسرا درجہ یہ ہے کہ نماز با جماعت ادا کی جائے۔ باجماعت نماز کی ادائیگی سے انسان ایمان کی تیسری سیڑھی پر چڑھ جاتا ہے۔ پھر چوتھا درجہ یہ ہے کہ انسان نماز کے مطالب کو سمجھ کر ادا کرے۔جو شخص ترجمہ نہیںجانتا وہ ترجمہ سیکھ کر نماز پڑھے اور جو ترجمہ جانتا ہو وہ ٹھہر ٹھہر کر نماز کو کماحقہ‘ ادا کرے۔یہاں تک کہ وہ سمجھ لے کہ میں نے نماز کو کما حقہ‘ ادا کیا ہے۔ پھر پانچواں درجہ نماز کا یہ ہے کہ انسان نمازمیں پوری محویّت حاصل کرے اور جس طرح غوطہ زن سمندر میں غوطہ لگاتے ہیں ۔اسی طرح وہ بھی نماز کے اندر غوطہ مارے یہاں تک کہ وہ دو میں سے ایک مقام حاصل کر لے۔یا تو یہ کہ وہ خدا کو دیکھ رہا ہو اور یا یہ کہ وہ اس یقین کے ساتھ نماز پڑھ رہا ہو کہ خدا تعالیٰ اُسے دیکھ رہا ہے۔ اس مؤخر الذکر حالت کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کوئی اندھا بچہ اپنی ماں کی گود میں بیٹھا ہو۔اپنی ماں کی گود میں بیٹھے ہوئے اُس بیٹے کو بھی تسلّی ہوتی ہے جو بینا ہو اور اپنی ماں کو دیکھ رہا ہو مگر ماں کی گود میں بیٹھے ہوئے اُس بیٹے کو بھی تسلی ہوتی ہے جو نابینا ہو۔اس خیال سے کہ گو وہ اپنی نابینائی کی وجہ سے ماں کو نہیں دیکھ رہا مگر اُس کی ماں اُسے دیکھ رہی ہے۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ نماز پڑھتے وقت بندے کو ان دو میں سے ایک مقام ضرور حاصل ہونا چاہئے۔ یا تو یہ کہ وہ خدا کو دیکھ رہا ہو اور یا یہ کہ اس کا دل اس یقین سے لبریز ہو کہ خدا تعالیٰ اسے دیکھ رہا ہے ۔یہ ایمان کا پانچواں مقام ہے اوراس مقام پر بندے کے فرائض پورے ہو جاتے ہیں ۔مگر جس بامِ رفعت پر اُسے پہنچنا چاہیے اس پر ابھی نہیں پہنچتا۔ اس کے بعد چھٹا درجہ ایمان کا یہ ہے کہ نوافل پڑھے جائیں ۔یہ نوافل پڑھنے والا گویا خداتعالیٰ کے حضور یہ ظاہر کرتا ہے کہ میں نے فرائض کو تو ادا کر دیا ہے مگر ان فرائض سے میری تسلی نہیں ہوئی اور وہ کہتا ہے ۔اے خدا میں یہ چاہتا ہوں کہ میں ان فرائض کے اوقات کے علاوہ بھی تیرے دربار میں حاضر ہؤا کروں جیسے کئی لوگ جب کسی بزرگ کی ملاقات کے لئے جاتے ہیں تو وہ مقررہ وقت گزر جانے پر کہتے ہیں کہ دو منٹ اور دیجئے۔اور وہ ان مزید دو منٹوں میں لذّت محسوس کرتے ہیں ۔اسی طرح ایک مومن جب فرائض کی ادائیگی کے بعد نوافل پڑھتا ہے تو وہ خداتعالیٰ سے کہتا ہے کہ اب میں اپنی طرف سے کچھ مزید وقت حاضر ہونا چاہتا ہوں۔ ساتواں درجہ ایمان کا یہ ہے کہ انسان نہ صرف پانچوں نمازیں اور نوافل ادا کرے بلکہ رات کو بھی تہجد کی نماز پڑھے۔ یہ وہ سات درجات ہیں جن سے نماز مکمل ہوتی ہے۔ اور ان درجات کو حاصل کرنے والے وہ لوگ ہوتے ہیں جن کے متعلق حدیث میں آتا ہے کہ خداتعالیٰ رات کے وقت عرش سے اترتا ہے اور اُس کے فرشتے پکارتے ہیں کہ اے میرے بندو! خدا تعالیٰ تمہیں ملنے کے لئے آیا ہے۔اُٹھو اور اس سے مل لو۔ پس ان سات درجوں کو پورا کرنا ہر شخص کے لئے ضروری ہے ۔ہر شخص کا فرض ہے کہ وہ نماز کا پابند ہو۔ہر شخص کا فرض ہے کہ وہ نمازوں کو وقت پر ادا کیا کرے۔ہر شخص کا فرض ہے کہ وہ نماز باجماعت ادا کیا کرے۔ہر شخص کا فرض ہے کہ وہ نماز کو سوچ سمجھ کر اور ترجمہ سیکھ کر ادا کرے۔ہر شخص کا فرض ہے کہ وہ علاوہ فرضی نمازوں کے رات اور دن کے اوقات میں نوافل بھی پڑھا کرے۔ہر شخص کا فرض ہے کہ وہ نماز کے اندر محویّت پیدا کرے اور اتنی محویت پیدا کرے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کے مطابق یا تو وہ خداتعالیٰ کو دیکھ رہا ہو۔یا وہ اپنے دل میں یہ یقین رکھتا ہو کہ خداتعالیٰ اُسے دیکھ رہا ہے ۔پھر ہر شخص کو چاہئے کہ وہ فرائض اور نوافل اس التزام اور باقاعدگی سے ادا کرے کہ اُس کی راتیں بھی دن بن جائیں ۔اسی طرح تہجد کی مناجات سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی کوشش کرے۔جب تک کوئی شخص اپنی نمازوں کی اس رنگ میں حفاظت نہیں کرتا اُس وقت تک اُس کا یہ اُمید کرنا کہ وہ اللہ تعالیٰ کو راضی کرے گا ایک وہم سے زیادہ کچھ حقیقت نہیں رکھتا‘‘۔ (تفسیر کبیر سورۃ المومنون زیرآیت10۔جلد 6صفحہ134-136) ……………………… مذکورہ بالا سات درجات تو نماز کے ظاہری درجات ہیں لیکن ان میں سے ہر درجہ میں قلبی اور روحانی کیفیات اور محبت اور اخلاص اور اطاعت کے جذبات کے لحاظ سے لامتناہی مدارج کا ایک سفر ہے جسے پیش نظر رکھنا ضروری ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 8؍نومبر 1985ء بمقام مسجدفضل لندن میں اس حقیقت کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا: ’’… سب سے اہم، سب سے زیادہ بنیادی اور مرکزی چیز نماز ہے ۔ قیام نماز میں ابھی وسعت کی بھی ضرورت ہے اور بہت زیادہ ضرورت ہے اور مرتبہ نماز کے لحاظ سے اس میں بلندی کی بھی ضرورت ہے اور نفس میں ڈوب کر، مطالب میں جذب ہو کر نماز پڑھنے کے لحاظ سے اس میں ابھی گہرائی کی بھی بہت ضرورت ہے اور اس لحاظ سے پختگی کی بھی ضرورت ہے کہ جو عادت ایک دفعہ پڑ جائے پھر وہ جائے نہ۔ ا س مضمون سے جب ہم نماز کی حالت پر نظر ڈالتے ہیں تو دنیا کی اکثر جماعتوں میں انصاف کی نظر سے دیکھتے ہوئے یہی معلوم ہوتا ہے کہ ابھی بہت زیادہ کام کی ضرورت ہے، بہت زیادہ محنت کی ضرورت ہے۔ … نماز پڑھنا، نماز کی حفاظت کرنا، نماز کے تقاضے پورے کرنا اور استقلال کے ساتھ اس پر جم جانا اتنا آسان کام نہیں ہے ۔بظاہر تم نمازیوں کو دیکھتے ہو کہ پانچ وقت نمازیں پڑھتے ہیں ،مسجدوں میں بھی جاتے ہیں اور گھروں کو بھی آباد رکھتے ہیں نمازوں سے، لیکن اس کے باوجود نماز ایک بہت ہی بوجھل کام ہے۔ کس لحاظ سے بوجھل ہے ؟ اس کی تفسیر بہت وسیع ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی اس پر بہت متعدد جگہوں پر روشنی ڈالی ہے لیکن صرف اتنا پہلو مَیں یہاں بیان کرنا چاہتا ہوں کہ نماز کے سارے تقاضے پورے کرنا آسان کام نہیں ہے اور ظاہری صورت میں نماز قائم بھی ہو جائے تو ایسی شکل ہوتی ہے جیسے برتن قائم ہوجائے کوئی اور اس کو دودھ سے بھرا نہ ہو ۔ اسے بھرنا اور پھر اس کی حفاظت کرنا بہت بڑے کام ہیں اور پھر اسے پھیلانا کیونکہ اقام الصلوٰۃ میں تو اکیلی نماز پڑھنے کا کوئی تصور نہیں ہے۔ نماز کو دوسروں میں رائج کرنے کے ساتھ یہ بندھا ہوا ہے مضمون۔ اقامت کا مطلب یہ نہیں ہے صرف کہ تم نماز کے لئے کھڑے ہوجائو بلکہ مراد یہ بھی ہے کہ دوسروں کو بھی نماز کے لئے کھڑا کرو۔ توفرمایا بہت بھاری ہے اِلَّا عَلَی الْخٰشِعِیْنَ لیکن وہ لوگ جو خشوع سے کام لیتے ہیں،جو بچھ جاتے ہیں خدا کی راہ میں، جو عاجز بن جاتے ہیں ،جن کے اندر درد پیدا ہوتا ہے ان کے لئے نماز آسان ہوجاتی ہے ۔ یہ غم، یہ خشوع خضوع، یہ خود نماز کی حفاظت کرتا ہے اور اس کا وزن ہلکا کردیتا ہے۔ اس کو بوجھ محسوس نہیں ہوتی بلکہ اس میں لذت پیدا ہوجاتی ہے۔ توہم نے ان حالات میں دیکھا کہ اس آیت کی تفسیرآج کل جماعت کے اوپر گزر رہی ہے عملی شکل میں۔ اس موقع سے فائدہ اٹھانا چاہئے اور نظام کے تابع گہری نظر ڈال کر تمام علاقوں پر ، تمام حلقوں پر ،تمام محلوں ، گلیوں اور گھروں پر نظر ڈال کر نظام جماعت کی جتنی شکلیں ہیں ان کو مستعدی کے ساتھ اس طرف توجہ دینی چاہئے کہ آج کل کے حالات سے سب سے بڑا فائدہ یہ اٹھائیں کہ نماز جو خدا نے آسان کر دی ہے اسے رائج کردیں کیونکہ خاشعین کے لئے نماز آسان ہوجاتی ہے۔ … تمام قرآن میں سب سے زیادہ زور نماز پر ہے۔ قرآن کریم میں زکوٰۃ سے پہلے صلوٰۃ ہے اورزکوٰۃ کا مضمون بھی پھرآگے بہت وسعت اختیار کرجاتا ہے، … ہر ایمان کے بعد سب سے پہلے صلوٰۃ کا ذکر ہے اور تمام دنیا کے مذاہب میں جہاں کہیں بھی کوئی مذہب آیا ہے ۔تمام قرآن کریم کے بیان کے مطابق نماز پر ہر نبی زور دیتا رہا ہے۔ نماز حفاظت کرتی ہے ۔ نماز ایک ساتھ رہنے والامربی ہے۔ جس شکل میں بھی کسی قوم نے کبھی خدا کی عبادت کی تھی ہرنبی نے سب سے زیادہ اس عبادت پرزور دیا تھا … عبادت کا معراج نماز ہے یعنی عبادت کی جو رسمی شکل ہے ظاہری، نماز ہے اور اس کو پھرقائم کرکے پھراس کو بھرنا ہے۔ ہم نے کئی طریق سے اس پر غور کرنا ہے کہ کس طرح ان میں زیادہ حسن پیدا کرنا ہے، سمجھانا ہے۔ … اکثریت ایسی ہے جن کو یہ نہیں پتہ کہ میرے بچوں کو نماز ترجمہ کے ساتھ آتی بھی ہے کہ نہیں اور نہ پتہ ہے نہ خیال آیا ہے اور بعض لوگ دوسروں کو ڈھونڈتے ہیں۔ جن کو خیال آتا ہے وہ کہتے ہیں جی ہمارے پاس کوئی نماز سکھانے کا انتظام نہیں ہے اس لئے ایک مربی بھیجا جائے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ مربّیوں کا کام ہے نماز سکھانا اور پڑھانا حالانکہ قرآن کریم بتاتا ہے کہ یہ والدین کا کام ہے۔ گھر سے شروع کرو اور پھر مستقل مزاجی کے ساتھ نماز کو قائم کرکے دکھائو وہاں ۔یہ عجیب سوال ہوتا ہے، مَیں حیرت سے دیکھتا ہوں۔ اگر تمہیں خود نماز نہیں آتی تو پہلے اپنی فکر کرو، بچوں کی کیابات شروع کی ہے۔ پہلے خودتو نماز سیکھو اور اگر خود نماز آتی ہے تو مربی کا کیا انتظار کرتے ہو ۔ جواوّلین مقصد ہے انسانی تخلیق کا اس مقصد سے محروم ہو رہے ہو محروم رہ رہے ہو اور انتظار کر رہے ہو کوئی آئے گا تووہ ہمیں سکھا دے گا۔ اتنے مربی نہ جماعت کے پاس ہیں، نہ یہ ممکن ہے کہ مربی دوسرے سارے کام چھوڑ دیں۔ جتنے ہیں ا گر وہ سارے کام دوسرے چھوڑ دیں اوریہی کام شروع کریں تو تب بھی وہ پورے نہیں ہوں گے۔ اس لئے قرآن کریم بڑا حکیمانہ کلام ہے۔ وہ واقعاتی بات کرتا ہے۔ خیالی اورفرضی بات نہیں کرتا ۔یہ ذمہ داری مربی پر نہیں ڈالی بلکہ ہرخاندان کے سربراہ پر ڈال دی ہے کہ تم کوشش کرو، تمہار ی ذمہ داری ہے۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام کے متعلق بھی یہی بتایا کہ بڑی خوبیوں کا مالک تھا ، وہ اپنی اولاد کو اپنے اہل و عیال کو مستقل مزاجی کے ساتھ نماز کی طرف توجہ دلاتا رہتا تھا۔ پس جماعت احمدیہ میں سب سے اہم کام اس وقت عبادت کو قائم کرنا ہے۔ نماز کو نہ صرف قائم کرنا ان معنوں میں کہ ظاہر اً کوئی شروع کردے بلکہ اس کے اندر مغز کواور روح کو بھرنا ہے اور جب تک بچپن سے نماز کا ترجمہ ساتھ نہ سکھایا جائے اس وقت تک نماز کے معنی انسان نماز پڑھتے وقت اپنے اندر جذب نہیں کرسکتا۔ ایک غیر زبان ہے ہم سوچتے اپنی زبان میں ہیں اورغیر زبان اگر سیکھ بھی لیں تب بھی عملاً ساتھ ساتھ اس کا ترجمہ کررہے ہوتے ہیں۔ سوائے اس کے کہ بعد میں بہت مہارت پیدا ہوجائے ورنہ شروع میں ہرانسان جو غیر زبان سیکھتا ہے وہ بولتے ہوئے بھی سنتے ہوئے بھی ساتھ ساتھ تیزی سے اس کا ترجمہ کررہا ہوتا ہے۔ … اسی لئے نماز پڑھنے والوں کی بھی کئی قسمیں اس پہلو سے بن جاتی ہیں۔کچھ وہ ہیں اور ایک بہت بڑی تعداد ہے جن کو آتا ہی نہیں نماز کا ترجمہ۔ اب ان کو ترجمہ ہی نہیں آتا تو بیچارے سوچیں گے کیا ۔پھر وہ ہیں جن کو ترجمہ آتا ہے لیکن جب تک پہلے عربی پڑھ کر پھر ساتھ اس کا ظاہراً ترجمہ نہ کریں، دماغ میں دہرائیں نہ پوری بات کو اس وقت تک اُن کوسمجھ ہی نہیں آتا کہ مَیں کیا کہہ رہا ہوں۔ اور جن کو نماز آتی ہے ان میں سے ایک بہت بڑی تعداد ایسی ہے جو اتنا وقت نہیں دیتی۔نماز پڑھتے ہیں اور بغیر محسوس کئے کہ جو میں نے نماز پڑھی ہے اس کا ترجمہ میں نے محسوس کیا ہے کہ نہیں، اس میں سے گزر جاتے ہیں۔ اورپھر کچھ اور ہیں جن کو مہارت ہوجاتی ہے ساتھ ساتھ ترجمہ خود بخود جذب ہونے لگ جاتا ہے لیکن ان کی توجہ بکھر جاتی ہے۔ نماز کے بعد بہت حصے خلا کے رہ جاتے ہیں جہاں توجہ اکھڑ گئی تھی ۔تو یہ ساری باتیں جوکسل کی حالت ہے اور بہت سی باتیں ہیں ، یہ نماز کی کوالٹی پر، اس کی قسم پراثر انداز ہوتی رہتی ہے۔ اس لئے اگر سو فیصدی بھی ایک جماعت نمازی ہوجائے اور پانچ وقت کی نمازی ہوجائے بلکہ تہجد بھی پڑھنا شروع کردے تب بھی ہم یہ نہیں کہہ سکتے ظاہری نظر سے کہ نماز قائم ہوگئی ہے یا نہیں ہوئی۔ کیونکہ اور بہت سے مراحل ہیں۔ لیکن آغاز بہرحال ترجمہ سے ہوگا یعنی اس کے اندر مغز پیدا کرنے کے لئے ترجمہ پہلے سکھا ئیں گے تو پھر دیگر امور کی طرف متوجہ کر سکیں گے۔ ترجمہ سکھانے کے لئے باہر کی دنیائوں میں اور بھی بہت سے ذرائع موجود ہیں مثلاً ویڈیو کیسٹس عام ہے۔ آڈیو کیسٹس ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ بچوں کو ترجمہ سکھانے کے لئے ماں باپ کا ذاتی تعلق ضرور ی ہے ۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ ویڈیوز کے اوپر آپ بنادیں اور ہم اپنے بچوں کو پکڑا دیں گے اور بے فکر ہوجائیں گے کہ ان کو نماز آنی شروع ہوگئی ہے۔ یہ درست نہیں ۔ عبادت کا تعلق محبت سے ہے اور محض رسمی طور پرترجمہ سکھانے کے نتیجہ میں عبادت آئے گی کسی کو نہیں۔ وہ ماں باپ جن کا دل عبادت میں ہو جن کو نماز سے پیار ہو جب وہ ترجمہ سکھاتے ہیں بچے سے ذاتی تعلق رکھتے ہوئے، بچہ اپنے ماں باپ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے دیکھ رہا ہوتا ہے، ان کے دل کی گرمی کو محسوس کررہا ہوتا ہے ، ان کے جذبات سے اس کے اندر بھی ایک ہیجان پیدا ہو رہا ہوتا ہے۔ وہ اگر نماز سکھائیں تو ان کا نماز سکھانے کا انداز اور ہوگا۔ … ہر احمدی کو خود نماز کے معاملے میں کام کرنا پڑے گا، محنت کرنی پڑے گی ، اپنے نفس کو شامل کرنا پڑے گا، اپنے سارے وجود کو اس میں داخل کرنا پڑے گا، تب وہ نسلیں پیدا ہوں گی جو نمازی نسلیں ہوں گی خدا کی نظر میں۔ … پس اس لئے ضروری ہے کہ نماز کو گہرا کیا جائے۔ اس میں خشوع پیدا کیا جائے۔ لیکن بہرحال جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے یہ تو ابھی بہت بعد کی منازل ہیں۔ پہلی منزل بھی ہے ایک لحاظ سے کہ جب خشوع کے حالات پیدا ہوجائیں تو پھر نمازیں آسان ہو نے لگ جاتی ہیں اور بعد کی منزل اس لحاظ سے ہے کہ اپنے بچوں کی آپ نے جب تربیت کرنی ہے تو ان کو خشوع کے مقام تک پہنچانے کے لئے آپ کو بہت محنت کرنی پڑے گی اورذاتی تعلق رکھنا پڑے گا، ذاتی قابلیتوں کو استعمال کرنا پڑے گا ،ذاتی تعلقات کو استعمال کرنا پڑے گاتب جا کر آئندہ آنے والی نسلیں آپ کی سچی نمازی بن سکیں گی ‘‘۔ …………………… ٭اسی طرح حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 6دسمبر 1985ء میں فرمایا: ’’امر واقعہ یہ ہے کہ دنیا کے اکثر نمازی بدقسمتی سے اپنی اکثر نمازوں کے لحاظ سے خالی برتن لئے پھر تے ہیں اور بعض نمازی جو باقاعدہ نماز پڑھنے والے ہیں اور ایک بھی نماز کاناغہ نہیں کرتے بدقسمتی سے ان کی اکثر نمازیں بھی خالی برتنوں کی طرح ہوتی ہیں۔ اس کی کئی وجوہات ہیں ۔ ان وجوہات کو سمجھنا چاہئے اور ان کی طرف توجہ دینی چاہئے اور نماز کی حفاظت کا یہ بھی حصہ ہے۔ بھری ہوئی نماز حقیقت یہ ہے کہ خالی نماز ایک بے حفاظت چیز ہے اور وہ فائدے نہیں بخش سکتی جو ایک بھری ہوئی نمازکے فوائد ہوتے ہیں۔اور ان مقاصد کو حل نہیں کرتی جو مقاصدایک بھری ہوئی نماز سے حاصل ہو سکتے ہیں۔ بھری ہوئی نمازسے کیا مراد ہے ؟ جیسا کہ مَیں نے بیان کیا سب سے پہلے تو اللہ تعالیٰ کے ذکر سے نماز بھرنی چاہئے۔ پھر ان مطالب سے نماز بھرنی چاہئے جو نماز کے الفاظ میں موجود ہیں۔ جب ہم الفاظ ادا کرتے ہیں تو چونکہ بہت سے لوگ نماز کے مطلب سے ہی بے خبر ہوتے ہیں یعنی معنی سے بے خبر ہوتے ہیںاس لئے وہ بیچا رے الفاظ تو کہہ جاتے ہیںلیکن انہیں پتہ نہیں لگتا کہ ہم کیا کہہ رہے ہیں۔ میں نے پہلے بھی اس مضمون کو بیان کیا تھا ، اس کی میں تکرار نہیں کرتامگر یہ بتانا چاہتا ہوں کہ باجماعت نماز کے بعد نماز کے معانی سکھانے اور مطالب سکھانے کا انتظام ہونا چاہئے۔ معانی سے میری مراد یہ ہے کہ سادہ معانی اور مطالب سے میری مراد یہ ہے کہ معنوں کے اندر جو گہرے مضمون پائے جاتے ہیں ان سے آگاہ کیا جائے ۔ یہ کام بچپن سے شروع کرنا چاہئے ۔ اگرآپ بچپن میں نماز معانی کے ساتھ اور مطالب کے ساتھ از بر کروادیںتو بچے کا ذہن اتنا گہرا اثر اور نقش قبول کرتا ہے کہ پھر وہ مٹ ہی نہیں سکتا ، اس کے لئے ہمیشہ کے لئے ایک ترقی کا رستہ کھل جاتا ہے ۔ اس رستے پر چلنا یا نہ چلنا اس کا کام ہے مگر رستہ بہرحال اسے میسر آجاتا ہے ۔ بڑے آدمی پر محنت بھی بہت زیادہ کرنی پڑتی ہے اور جو محنت کی جائے اس کا نتیجہ اتنا اچھانہیں نکلتا جتنا بچے پر محنت کرنے کا نتیجہ نکلتا ہے۔ لیکن بہت سے ایسے بچے ہیںجو اس عمر سے گزر بھی چکے اور کسی نے ان کو نماز نہیںسکھائی۔ یعنی اس کے معانی نہیں بتائے ، اس کے مطالب سے آگاہ نہیں کیا اور جوانی کے دور میں داخل ہوگئے ہیں، بہرحال ان پر جوانی میں محنت کرنی پڑے گی۔ ایسے بوڑھے بھی ملیں گے جو جوانی سے گزر کر بڑھاپے میںداخل ہوگئے ہیں اور نماز کے معانی سے ناآشنا ہیں۔ ان پر بڑھاپے میں محنت کرنی پڑے گی اورجتنی عمر بڑھتی چلی جائے گی اتنی آپ کو زیادہ محنت کرنی پڑے گی ۔ یہ چونکہ ایک نسل کاکام نہیں ہے، ایک دَور کا کام نہیں ہے، قیامت تک کے لئے اپنی نسلوں کی حفاظت کی ذمہ داری خدا تعالیٰ ہم پر ڈالتا ہے اس لئے اسے آج شروع کریں۔ کل آپ کے بزرگوں نے جو آپ پر محنت کی تھی اس کا پھل آج آپ کھا رہے ہیں ۔ کل کے بچوں پر آپ نے محنت کرنی ہے اورکل کی آنے والی نسلوں کو آپ نے پھل عطا کرنے ہیں۔اس لئے بزرگوں کی محنت کا شکریہ ادا کرنے کا ایک یہ طریق ہے کہ آپ آئندہ ان کے فیض کو جاری کر دیں ۔ دوسرا پہلو نمازوں کے بھرنے کے متعلق یہ ہے کہ جب تک اﷲ تعالیٰ سے تعلق قائم نہ ہو اور نماز کا مقصد واضح نہ ہو اس وقت تک مطالب معلوم ہونے کے باوجود بھی نماز نہیں بھرے گی۔ بعض دفعہ پھل موٹابھی ہو جاتا ہے لیکن پکتا نہیں۔ تو جو لذت پکے ہوئے پھل کے کھانے سے حاصل ہوتی ہے اگر کچے پھل پر آپ منہ ماریں تو بالکل اس کا برعکس نتیجہ نکلتا ہے ۔ بعض پھل جوپکنے کے بعد نہایت شیریں ہو جاتے ہیں، رس سے بھر جاتے ہیںاگرکچے کھائے جائیں تو نہ صرف یہ کہ شدید تکلیف پہنچتی ہے بلکہ بعض دفعہ عوارض لگ جاتے ہیں اس لئے نماز کو صرف مطالب سے پڑھناکافی نہیں جب تک ان مطالب میں اﷲ تعالیٰ کی محبت کا رس داخل نہ ہو جائے، اس وقت تک ان مطالب میں مزا نہیں آسکتا اور نمازکے ساتھ ایک ذاتی لگائو پیدا نہیں ہوسکتا ۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام نمازکا مقصد وصل بیان فرماتے ہیں۔فرماتے ہیںیہ تو ایک سواری ہے جس پر بیٹھ کر انسان کسی محبوب کی طرف جاتا ہے اور ہردفعہ ہر سفر کا مقصداس سے ملاقات ہے ۔ پس اگر آپ پانچ نمازیں پڑھتے ہیں تو نماز کی سواری پر بیٹھ کر آپ پانچ دفعہ خدا تعالیٰ کی ملاقات کے لئے روانہ ہوتے ہیں ،اگر چھ نمازیں پڑھتے ہیں تو چھ دفعہ روانہ ہوتے ہیں اور اگر اس کے علاوہ اور نوافل پڑھ لیتے ہیں تو اتنی ہی دفعہ خدا کی خدمت میں حاضر ہونے کے لئے روانہ ہوتے ہیں ۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم نے اسی مضمون کو احسان کی تفسیر کے طور پر بیان فرمایا ہے ۔ فرمایا احسان کیا ہے ؟اس طرح نماز پڑھنا کہ گویا تُو خدا کو دیکھ رہا ہو ۔یعنی وصل کی اور کیا تعریف ہے۔ نہ صرف خدا کے حضور حاضر ہو بلکہ اسے دیکھ رہے ہو اور اگر اتنی توفیق نہیں ملتی، اس مقام تک نہیں پہنچتے تو کم سے کم اتنا تو ہو کہ گویا خدا تمہیں دیکھ رہا ہے۔ (بخاری کتاب الایمان حدیث نمبر48) ایسی نمازیں اصل میں وہ نمازیں ہیں جو شیریں اور پُرلذت مضمون کے ساتھ بھر جاتی ہیں کیونکہ جس شخص کو آپ مخاطب کر رہے ہیں اوراس کی ثناء اور اس کی تسبیح کررہے ہیں،اس کی حمد کے گیت گا رہے ہیں، اگروہ سامنے موجود ہو اورآپ کو احساس ہو کہ وہ سن رہا ہے پھر آپ کی اس تعریف اور اس حمدو ثناء میں ایک خاص لذت پیداہو جائے گی۔ اور اگر اس کی حاضری کا احساس نہ ہو یا یہ بھی احساس نہ ہوکہ وہ ہمیں دیکھ رہا ہے تو یہ ساری چیزیں بے معنی ہوجائیں گی۔ وہی الفاظ آپ زندگی میں کروڑوں دفعہ بھی دہرائیں تو ان کے کوئی معنی نہیں ہوں گے۔ یعنی مطلب سمجھنے کے باوجود بھی وہ نتیجہ خیز نہیں ہوں گے۔ اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰ ۃ والسلام اس کی طرف بار بار توجہ دلاتے ہیںاور وصال نہ ہونے کی دوا بھی بتاتے ہیں۔ وصال کیسے نصیب ہوتا ہے ؟اس کا علاج کیا ہے اگر نصیب نہ ہوتو ؟ فرماتے ہیں: ’’ جب تک خدا کسی کو پاک نہ کرے کوئی پاک نہیں ہوسکتا اور جب تک وہ خود وصال عطا نہ کرے کوئی وصال کو حاصل نہیں کرسکتا ‘‘۔ پس ان معنوں کی رو سے احسان کا ایک اور معنی بھی سمجھ آگیا کہ کیوں اسے احسان کہاگیا؟ حضرت اقدس محمدمصطفی صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم نے لقاء کا نام احسان بیان فرما یا ہے ۔اس کا ایک عارفانہ نکتہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ہمیں یہ معلوم ہوا کہ اس لئے کہ خدا کے احسان کے بغیر وصال نہیں ہوسکتا یہ ہے احسان ۔اللہ کااحسان جب بندے پر ہوجائے تو اس کی نمازوں میں خدا نظر آنے لگ جاتا ہے ۔ ایک اور طریق سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃو السلام اس مضمون کو بیان فرماتے ہیں کہ نمازوں کو وہاں تک آگے بڑھائو ، وہاں تک نمازوں پہ محنت کروکہ وہ جو سنتا ہے وہ بولنے لگ جائے ۔ یعنی خدا اور بندے کے تعلق میں نمازوں کے ذریعہ پہلے تو یک طرفہ مناجات کاتعلق قائم ہوتا ہے اور جب وہ تعلق بڑھتاچلا جاتا ہے اور انسان اس کے حضور یک طرفہ گزار شات کرتا چلا جاتا ہے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃو السلام فرماتے ہیں کہ پھر ایک ایسا وقت آتا ہے کہ وہ جو سنتا ہے وہ پھربولتا بھی ہے، وہ جواب بھی دیتا ہے۔ اس طرح لقاء کا مضمون مکمل ہو جاتا ہے ۔ وہ سامنے آکھڑا ہوتا ہے ۔یعنی پہلے تمہیں احساس کرنا پڑے گا کہ گویا وہ سامنے ہے ،پھر جب اس کی صفات کے گیت گائو گے تو یوں محسوس ہو گا جیسے واقعۃً وہ کھڑا ہے اور تمہیں دیکھ رہا ہے اور بعد ازاں وہی وجود بولنے لگ جائے گا اور اپنے کلام سے اپنے وجود کا ثبوت دے گا۔ یہ سب کچھ کیسے حاصل ہوسکتا ہے ؟ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام فرماتے ہیں : ’’جب تک خدا کسی کو پاک نہ کرے کوئی پاک نہیں ہوسکتا اور جب تک وہ خودوصال عطا نہ کرے کوئی وصال کو حاصل نہیں کرسکتا ۔ طرح طرح کے طوق اور قسما قسم کے زنجیر انسان کی گردن میں پڑے ہوئے ہیں ‘‘۔ اب آپ اس سے اندازہ کریں کہ نماز کو قائم کرنا درحقیقت کتنی محنت کا کام ہے اور ہونا بھی چاہئے‘‘۔ (باقی آئندہ)